جیسا کہ ہم پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں انسان ہمیشہ نئی چیزوں کی کھوج میں سرگرم عمل رہا ہے اور جب اس کی یہ کھوج مکمل ہوجاتی ہے تو وہ اس کو بہتر بنانے کی کوشش میں سرگرم عمل ہو جاتا ہے ایسی ہی کچھ کوشش رچرڈ ٹریوتھک کی سنہ 1808ء میں ٹرین کی ایجاد کے بعد بھی جاری رہیں
انہی کوششوں کی بدولت سنہ 1894ء رچرڈ کی ایجاد کو جدت دینے کا آغاز انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک تیار ساز کمپنی رچرڈ ہورنسبے اینڈ سنز نے کیا یہ وہ پہلی ٹرین تھی جو بھاپ کے بجائے مٹی کے تیل کی طاقت کی محتاج تھی ایسی صرف چار ٹرینیں تیار ہوئیں جو رائل آرسنل ریلوے کے زیراستعمال تھیں
اس کاوش کو سراہتے ہوئے سنہ 1902ء میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے میڈسلے موٹر کمپنی نے سائرل چارلس میڈسلے کی سربراہی میں موجودہ انجن کے ڈیزائن میں جدت پیدا کی اور اسے پٹرول کی طاقت پر منتقل کر دیا میڈ سلے کمپنی کا تیارکردہ یہ انجن 80 ہارس پاور کی طاقت کا حامل تھا اور تین عدد سلینڈر پیٹرول انجن اور دو عدد گئیر بکس پر مشتمل تھا
سنہ 1906ء میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے اوڈ لوف ڈیزل اور ویٹرمبرگ ریلوے اسٹیشن کے چیف انجینئر اڈولف کلونسی نے انجن تیار کرنے والی ایک کمپنی پر گبروڈر سلزر کی مدد سے ایک انجن تیار کیا یہ انجن ڈیزل کی طاقت کا محتاج تھا
اس ڈیزل انجن کو سنہ 1912ء میں وینٹرتھر رومنشروں ریلوے ، سوتزرلینڈ میں چلایا گیا
سنہ 1914ء میں ہرمن لیمپ کی الیکٹرک کنٹرول سسٹم کی ایجاد کے نے سنہ 1924ء میں تیار ہونے والے ڈیزل الیکٹرک انجن کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا اس انجن کو یوری لومونوسو نے ڈیزائن اور جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی مسچننفبرک اسلینگن نے تیار کیا۔
سنہ 1950ء میں ہائیڈرالک ٹرانسمیشن کو استعمال کرتے ہوۓ ڈیزل ہائیڈرالک انجن متعارف کرواۓ گئے
یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بتانا ضروری سمھجتے ہیں کے ہائیڈرالک ٹرانسمیشن کسی بھی مشین یا انجن میں مائع مادے کے استمعال کو کہتے ہیں
یہ انجن سنہ 1950ء سے 1990ء کے دورانیہ میں تیار کیے گئے تھے جس میں ڈوتسچے بندسبہان انجن کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جسے عام طور پر ڈی -بی کلاس وی 200 کہا جاتا ہے
جب بات ہورہی ہو ہائیڈرالک انجنوں کی تو یہاں پر ایک اور اسی طرح کے انجنوں کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو عام طور پر ہائیڈرالک انجن سے تعلق نہیں رکھتا لیکن اگر ہم کارکردگی کی بات کریں تو یہ نہ صرف ہائیڈرالک انجن سے وزن میں کم رفتار میں کہیں تیز ہے
جی ہاں جناب ہم بات کر رہے ہیں ٹربائن انجن کی اس انجن میں گیس ٹربائن کی مدد سے الیکٹرک جنریٹر کو چلایا جاتا ہے
اس کی ایک عام مثال دنیا کے ان ترقی پذیر ممالک میں عام دیکھنے کو ملتی ہے جہاں بجلی کی قلت کے باعث گیس جنریٹر کے استمعال کیا جاتا ہے۔
اس انجن کی ایجاد سنہ 1861ء میں مارک انٹون فرانکوئس میننونس نے برطانیہ میں کی ٹھوس شواہد موجود نہ ہونے کے باعث یہ بات کہنا مشکل ہے کے اس کے ڈیزائن کو تیار کیا گیا تھا یا نہیں.
سنہ 1952ء میں مارک کے ڈیزائن پر عمل کرتے ہوۓ رینالٹ نے پہلا گیس ٹربائن انجن متعارف کروایا اس انجن کی رفتار ایک خاص اندازے کے مطابق 1150 ہارس پاور ہے سنہ 1959ء میں چند خاص تبدیلیاں کر کے اس کی طاقت کو 2400 ہارس پاور کر دی گئی یہ انجن عام ڈیزل انجن سے نہ صرف وزن میں کم بلکے تیز رفتار بھی ہوتے ہیں
تو جناب بات ہو تیز رفتاری اور جنریٹر کی اور ہم رابرٹ ڈیوڈسن کی الیکٹرک ٹرینوں کے انجن کے بارے میں بات نہ کریں یہ تو پھر زیادتی ہوگی ویسے آپ الیکٹرک ٹرینوں سے ہمارا مطلب سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ کس طرف ہے ویسے تو کسی زی شعور انسان کے لیے یہ سمھجنا بہت آسان ہے کہ الیکٹرک ٹرینوں کا کیا مطلب ہے اور یہ انجن کیسے کام کرتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم کے ان انجنوں کی دو اقسام پائی جاتی ہیں
ایک ڈائریکٹ کرنٹ اور دوسرا آلٹرنیٹو انجن شامل ہیں اور ان کے موجد بھی مختلف ہیں
پہلی مسافر ٹرین جو ڈائریکٹ کرنٹ کے نظام کے تحت چلتی تھی اس کے موجد ورنر وون سیمینس نے سنہ 1879ء میں برلن میں ایجاد کی.
اس ٹرین کو چلانے کے لئے تقریباً 2.2 کلواٹ کی طاقت درکار ہوتی ہے اور یہ 13 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے
اسی طرح پہلی آلٹرنیٹو کرنٹ ٹرین سنہ 1891ء میں سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والے انجنیئر چارلس براؤن نے تیار کی تھی
تو جناب ٹرینوں کی ایجاد کا یہ سلسلہ آج بھی ویسے ہی جاری ہے کون سوچ سکتا تھا رچرڈ کی یہ ایجاد جس کو شروعات میں نظر انداز کیا اتنی کارگر ثابت ہوگی
ارے ابھی روک جائیں کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کے ٹرینوں کی جدت کا یہ سلسلہ الیکٹرک ٹرینوں پر آکر روک گیا ہے تو ایسا بلکل بھی نہیں ہے ٹرینوں کی جدت کا یہ سلسلہ اب بھی ویسے ہی جاری ہے اور اس میں کئی اہم نام ابھی بھی باقی ہیں جس پر ہم آگے چل کر پھر بات کریں گے
اب تک بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ- سید مرتضیٰ حسن
0 Comments