مجھے کون پکڑ سکتا ہے؟
آخر وہ کیا مسائل تھے جس کی بدولت مہینوں کا سفر دنوں میں بدل گیا
انسان شروع سے ہی ترقی کا خواں رہا ہے اور کچھ کردیکھانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہتے ہیں کہ باز اوقات انسان کی زندگی میں کچھ ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو یا تو وہ اُس کی دنیا بدل دیتے ہیں یا پھر وہ دنیا کو بدل دیتا ہے اور ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔
ایسے ہی کچھ مسائل رچرڈ ٹرِیوِتھک کو بھی درپیش تھے۔
رچرڈ ٹرِیوِتھک
رچرڈ ٹرِیوِتھک 13 اپریل 1771ء کارن وال ،انگلینڈ میں پیدا ہوئے اور 22 اپریل 1833ء کو ڈٰرٹفورٹ، کینٹ ،انگلینڈ میں 62 سال کی عمر میں وفات پائی۔
رچرڈ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کے والد پیشے کے اعتبار سے مائن انجنیر تھے اور ایک مائن میں کپتان کے فرائض انجام دے رہے تھے، شروعات سے ہی رچرڈ کا ذہن پڑھائی سے ذیادہ کھیلوں کی طرف مائل تھا اور اسی وجہ سے تعلیمی میدان میں کوئی خاص مقام پیدا نہ کرسکے بچپن سے ہی رچرڈ کان کنی اور بھاپ والے انجنوں کی ایجادات میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے جسے اُس وقت کان سے پانی نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔
اسلئے محض 19 سال کی عمر میں راچرڈ نے ایسٹ سٹرے پارک مائن میں اپنے کام کا آغاز کیا اور جلد ہی اس کام میں اپنی دلچسپی اور اپنے والد کے نام کی بدولت شہرت حاصل کرلی۔
یہاں ہم اس بات کو بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک کان کنی میں جدت پیدا نہیں ہوئی تھی اور اسوقت تک کان میں کوئلے کی نقل و حمل کے لئے گھوڑا گاڑی کا استعمال کیا جاتا تھا رچرڈ نے کان میں نقل و حمل کو بہتر بنانے کے لئے جدید منصوبہ پیش کیا رچرڈ نے سنہ 1770ء میں ولیم وارڈوک کے ایجاد کیے گئے بھاپ کے انجنوں کو بہتر بناتے ہوئے اُس کی ہارس پاور میں اضافہ کیا۔
لیکن اُن کے ساتھیوں کی جانب سے اس منصوبے کو جلد ہی مقامی کارن وال ٹیکنیکل کمیونٹی میں مسترد کردیا گیا اس کی ایک بنیادی وجہ کان مالکان اور ٹیکنیکل ماہرین کے مابین اتفاق اور اعتماد کا بحران تھا جو اِس منصوبہ کی منظوری کی راہ میں ہائل تھا ،لیکن یہاں رچرڈ نے ہار نہ مانی۔
رچرڈ نے انیسوں صدی کے شروعاتی سالوں میں آئرن فیکٹری کے مالک سامول ہمپفرے سے مالی امداد حاصل کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کا آغاز کیا اور جلد ہی ایک ہائی پریشر بھاپ انجن ایجاد کیا جو دو ایکٹنگ سلینڈر، چار طرفہ والو اور ایک عدد چمنی پر مشتعمل تھا اس انجن میں موجود کرینک شافٹ اس کی لینیر موشن (لکیری حرکت) کو روٹیشنل موشن(گول گھومتی حرکت) میں بدل دیتی تھی اور اس کی اسی خوبی نے اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
سنہ 1801ء میں رچرڈ نے پیفنگ ڈیول کے نام سے کیمبورن میں ایک بڑا اسٹیم روڈ لوکوموٹو ایجاد کیا (یہاں ہم اس بات کو واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سنہ 1770ء میں پہلے ہی بھاپ سے چلنے والی گاڑی ایجاد ہو چکی تھی جس کے موجد نیکولس جوصف کگنوٹ تھے )ے
پیفنگ ڈیول انجن
رچرڈ نے کرسمس کی ایک شام اپنی ایجاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھ مسافروں کو کامیابی کے ساتھ پہلے فور اسٹریٹ سے کیمبورن ہل تک اور پھر کیمبرون کروس سے بیکن گاوں تک کا سفر کروایا اس سفر میں رچرڈ کا ساتھ اینڈرو وائیون نے دیا جو رشتے میں اُن کی کزن بھی لگتی تھی جسے بعد میں ایک بڑا سفری مظاہرہ تسلیم کیا گیا جو بھاپ کی طاقت کا محتاج تھا۔
اینڈرو وائیون
مزید تجربات کے دوران پیفنگ ڈیول اپنے مظاہرہ کے تین روز بعد ہی ایک حادثہ کے نتیجہ میں انجن جل کرتباہ ہوگیا لیکن رچرڈ نے اسے بڑی ناکامی تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اُسے صدمہ ہوا۔
رچرڈ کی یہ ایجاد سنہ 1802ء میں اُسے کول بروک ڈیل لے گئی جہاں اُس نے پانی کی پیمائش اور حرارت پر کام کیا اور وہیں کول بروک ڈیل کمپنی کی مدد سے رچرڈ نے انجن تیار کیا جو ایک منٹ میں 40 سٹروک پر چلتا تھا اور اُس کا بوائلر 145 پریشر لمٹ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا جو کہ اُس وقت اپنی مثال آپ تھا لیکن یہ بات اتنی عام نہ ہوئی لیکن اس بات کے ثبوت سائنس میوزیم لندن میں موجود رچرڈ کی ڈرِائنگ اور اپنے دوست ڈِیوڈ گلبرڈ کو لکھے گئے خط سے ملتے ہیں۔
کول بروک ڈیل انجن
اسی سال رچرڈ نے پینی ڈیرن آئرن ورکس میں ہتھوڑا چلانے کے لئے آئرن فیکٹری کے مزدور (رسِ جونز) کی مدد اور سامول ہمپفرے(آئرن فیکٹری کے مالک) کی نگرانی میں ایک زیادہ بھاپ والا انجن بنایا جسے بعد میں پہیوں پر نصب کر کے گاڑی میں تبدیل کر دیا گیا، رچرڈ نے اپنی یہ ایجاد سامول ہمپفرے کو فروخت کر دی تھی دراصل سامول ہمپفرے رچرڈ کی بھاپ والی گاٰٰڑی سے بھت متاثر تھا اور اُس نے اپنے دوست سے یہ شرت لگا رکھی تھی کہ یہ گاڑی دس ٹن لوہا اپنے ساتھ پینیڈیرن آئرن ورکس سے آربیکینن (گاوں) تک کھنیچ سکتی ہے جو سامول نے بعد میں جیت لی تھی اور اس انجن کو اس کے پرانے کام پر لگا دیا تھا۔
پینی ڈیرن آئرن ورکس
پیفنگ ڈیول انجن زیادہ عرصہ اپنی ساخت برقرار نہ رکھ سکا اور بند کر دیا گیا، سنہ 1803ء میں رچرڈ نے بھاپ سے چلنے والی گاڑی بنائی جسے لندن سٹیم انجن کا نام دیا گیا جو عوامی توجہ کا مرکز بنی رہی لیکن اسی سال جب یہ لندن سے ہولبورن سے پیڈنگٹن اور واپسی کے راستے پر چلائی گئی تو یہ عام چلنے والی گھوڑا گاڑی سے مہنگی ثابت ہوئی لہذا اسے بند کر دیا گیا۔
لندن سٹیم انجن
سنہ 1808ء میں رچرڈ، جون ہزلڈائن اور جون اُرپتھراسٹک نے شاپشائر میں اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آخری بھاپ سے چلنے والی ریل گاڑی ایجاد کی یہ اب تک بنائی جانے والے تمام بھاپ انجنوں سے الگ اور جدید تھی جس کا نام کیچ می ہو کین کا نام ڈیوڈ گلبرٹ کی بیٹی کی جانب سے رکھا گیا تھا اپنی اس ایجاد کا مظاہرہ انہوں نے ایسٹون سکوائر اسٹیشن لندن میں ایک گول ٹریک پر کیا اور یہ بات ثابت کی ریل کا سفر گھوڑوں سے زیادہ محفوظ اور تیز ہے لیکن لوگوں کی طرف سے داد نہ وصول ہونے کے صدمہ کی وجہ سے رچرڈ نے آئیندہ ریل گاڑی ڈیزائین نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
کیچ می ہوو کن ٹرین
یہاں ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ رچرڈ نے 1808ء میں ہونے والے نقصان اور صدمہ کے بعد بھی اپنی ایجادات کا سلسلہ نہ روکا اور یہ سلسلہ رچرڈ کی وفات سے ایک سال قبل تک جاری رہا۔
ڈرٹفورٹ میں سال بھر کام کرنے کے بعد، رچرڈ ببمار ہوگئے اور کچھ ہفتے اس بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد 22 اپریل 1833ء کی صبح بُل ہوٹل میں وفات پائی۔
یہاں یہ آ مر نہایت ہی افسوسناک اورقابل مذمت ہے کہ رچرڈ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بلکل تنہا اور غریب ہوگئے تھے حتیٰ کے رچرڈ کی آخری رسومات کا خرچ اُن کے ساتھ کام کرنے والوں نے چندہ جمع کر کے ادا کیا اور اُن کی قبر کی حفاظت کے لئے خرچہ بھی ادا کیا اور ایک بے نام قبر میں دفن کردیا گیا جو سٹ بیورل گراونڈ، ایسٹ ہل، ڈرٹفورٹ میں موجود ہے۔
اب تک کہ بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ۔