روڈولف ڈیزل |
رڈولف کرسچن کارل ڈیزل 18 مارچ سنہ 1858ء کو فرانس کے مشہور شہر پیرس میں ایک کتابوں کی جلدوں کا کام کرنے والے تیھوڈر ڈیزل کے گھر میں پیدا ہوئے اور 29 ستمبر سنہ 1913ء کو 55 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
رڈولف کی پیدائش کے چند ہفتے بعد ہی اُنہیں پیرس کے علاقہ وینسینس میں موجود ایک کسان خاندان کے حوالے کر دیا گیا اور یوں رڈولف نے اپنی پیدائش کے بعد نو ماہ ایک کسان کے گھر گُزارے رڈولف کی پیدائش سے قبل ہی اس کا خاندان مالی مشکلات کا شکار تھی اور شاید یہی وجہ تھی جس کی بدولت بہت کم عمری میں رڈولف نے اپنے بابا کی ورک شاپ میں کام کی شروعات سے اپنے عملی سفر کا آغاز کیا اور اسی دوران ایک مقامی اسکول سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنی قابلیت کی بدولت 12 سال کی عمر میں کانسی کا تمغہ حاصل کرتے ہوئے سنہ 1870ء میں ہائی اسکول میں تعلیم کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کردی۔
اسی سال ملک میں خانہ جنگی کے باعث رڈولف کا خاندان انگلینڈ کے شہر لندن منتقل ہوگیا اور رڈولف کو تعلیم کے حصول کے لئے جرمنی کے شہر اگسبرگ بھیج دیا گیا جہاں محض 14 سال کی عمر میں رڈولف نے اپنی قابلیت کے جوہر دیکھاتے ہوئے سنہ 1873ء میں اپنی ابتدائی تعلیم کو اول پوزیشن کے ساتھ مکمل کیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے والدین کو ایک خط کے ذریعہ اپنی انجینئرنگ میں دلچسپی سے آگاہ کیا اور جلد ہی اگسبرگ کے مقامی انڈسٹریل اسکول سے اپنی اعلیٰ تعلیم کا آغاز کیا بعدازاں دو سال کے کامیاب تعلیمی سفر کے بعد جرمنی کے شہر میونچ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں اسکولرشپ حاصل کی ۔
سنہ 1880ء میں رڈولف نے ایک بڑے اعزاز کے ساتھ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور بعدازاں پیرس میں قائم ماڈرن ریفریجرشن اینڈ آئس پلانٹ ایک اسسٹنٹ کی حثیت سے اسی یونیورسٹی کے پروفیسر کارل ون لنڈے کے ساتھ اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنی قابلیت کی بدولت اس پلانٹ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔
سنہ 1883ء میں مارتھا فلاسچے کے ساتھ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے بعدازاں سنہ 1890ء میں چند دیگر کارپوریٹس اور لنڈے کارپوریٹ کے زیرِ تحت چلنے والے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا انتظام سنبھالنے کی غرض سے جرمنی کے ایک بڑے شہر برلن میں بیوی اور بچوں کے ہمراہ منتقل ہوگئے اپنے برلن میں کام کے دوران تھرمل اور فیول کی کارکردگی پر ریسرچ کی بدولت امونیا بخارات کو استعمال کرتے ہوئے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا انجن تیار کیا
یہاں ہم اپنے معزز قارئین کی معالومات میں اضافہ کے لئے اس حادثے کا ذکر لازمی جو اسی بھاپ سے چلنے والے انجن کے پھٹنے کی بدولت پیش آیا اور اس کے نتیجہ میں رڈولف کو اگلے کئی ہفتے ہسپتال میں گزارنے پڑے
سنہ 1892ء میں دورانِ تعلیم ڈیزائن کئے گئے انٹرنل کمبسٹن انجن کی تیاری پر نظریاتی کام کی شروعات کی اور اسی سال جلد ہی اپنے اس نظریاتی کام کو مکمل سمجھتے ہوئے اپنے نام پر پیٹنٹ درج کروائی بعدازاں سنہ 1893ء میں اپنے اس نظریاتی کام میں غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے ایک اور پیٹنٹ درج کروائی
رڈولف تھرموڈائنمکس اور فیول کی کارکردگی کے درمیان کی رکاروٹوں بہت بہتر طریقے سے سمجھ چکے تھے اور اس بات کو بہت بہتر طریقے سے جانتے تھے کہ فیول میں موجود 90 فیصد طاقت بھاپ کی طاقت سے چلنے والے انجن میں ضائع ہوتی ہے اور اپنی اسی تحقیق کی بدولت بہت جلد پہلے سے بہتر اور رفتار میں تیز انجنوں کی تیاری پر کام کی شروعات کی
ڈیزل انجن |
اسی سال اگسبرگ میں قائم مین سی کمپنی کے ڈائریکٹر ہینریچ ون بُز نے رڈولف کی ایجادات سے متاثر ہوتے ہوئے تجربات کرنے کا موقع دیا اور انہیں تجربات کے نتیجہ میں بعدازاں سنہ 1897ء میں دنیا کے سب سے پہلے ڈیزل انجن کا کامیاب تجربہ کیا گیا اور رڈولف کا یہ انجن آج بھی میونچ میں واقع جرمن ٹیکنیکل میوزیم میں موجود ہے۔
یہاں پر ہم اپنے معزز قارئین کی معالومات میں اضافہ کے لئے یہ بتاتے چلیں کہ رڈولف نے اپنے اس انجن کی ایجاد کو کئی گاڑیوں پر تجربہ کے طور پر استعمال کیا اور جس میں سب اہم ڈیزل انجن کی طاقت سے چلنے والی ٹرین کو شمار کیا جاتا ہے
ستمبر29 سنہ 1913ء کو انگلینڈ کے شہر لندن میں واقع ایک ڈیزل مینوفیکچرنگ کمپنی سے ملاقات کی غرض سے ایک بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز ایس ایس ڈرسڈین کے ذریعے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اس سفر کی شروعات کے پہلی رات 10 بجے کھانے کے بعد اسی بحری جہاز سے ہی اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا بقول جہاز پر موجود عملے کے وہ ہمیں صبح 06:30 بجے جگانے کا بولا اور اپنے کمرے میں چلے گئے لیکن اگلی صبح وہ اپنے کمرے میں موجود نہ تھے اُن کے رات کے کپڑے اُن کے بستر پر موجود تھے اور بہت تلاش کے بعد اُن کی ٹوپی ڈیک کی ریلینگ کے پاس پائی گئی
بعدازاں دس دن کے وقفہ کے بعد نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والی کشتی کو ایک آدمی کی لاش کو پانی سے نکالا گیا لیکن کافی عرصہ پانی میں رہنے کے باعث یہ لاش نہ قابلِ شناخت تھی تاہم اس لاش کی تلاشی کے دوران اس سے برآمد ہونے والی اشیاء کو پہچان لیا گیا اور لاش کو ایک بار پھر سے سمندر کے حوالے کر دیا گیا بعدازاں اسی سال 13 اکتوبر کو رڈولف کے بیٹے ایگون ڈیزل نے اپنے بابا سے متعلق اُن اشیاء کی پہچان کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کہ وہ لاش رڈولف ڈیزل کی ہی تھی۔
آج تک رڈولف ڈیزل کی موت ایک معمہ ہے رڈولف سے تعلق رکھنے والے کچھ قریبی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ رڈولف ڈیزل نے خودکشی کی ہے جبکہ بعض افراد آج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ یہ ایک قتل تھا جس کی چند اہم وجوہات بھی ہیں جس میں سب اہم بات وہ ملاقات تھی جو رڈولف اور برٹش رائل نیوی کے درمیان لندن میں ہونے والی ملاقات تھی
خیر رڈولف کی موت کی وجہ جو کوئی بھِی ہو لیکن اس بات سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ رڈولف کی ڈیزل انجن کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
بلاگ میں ساتھ دینے کا شکریہ -سید مرتضیٰ حسن
0 Comments